حضرت منصف کوئی الہام تو بتلائیے
فیصلہ فرما دیا الزام تو بتلائیے
آپ ہی منصف یہاں پر آپ ہی ہیں مدعی
خیر جو بھی ہے مرا انجام تو بتلائیے
آپ کے نزدیک گر عہد وفا اک کھیل ہے
کیا ملے گا جیت کر انعام تو بتلائیے
حشر رانجھے کا بیاں کرتے ہیں صاحب آپ کیوں
کوئی ہم سا ہے اگر ناکام تو بتلائیے
بعد مدت مل رہے ہیں آج اپنے آپ سے
بھول بیٹھے ہیں ہمارا نام تو بتلائیے
عشق کے بازار میں ہیں تاجروں کے سربراہ
ہم کو بھی کوئی مناسب دام تو بتلائیے
چاک دل کے درد سارے جو بھلا دے بن پئے
آپ کی آنکھوں میں ہے وہ جام تو بتلائیے
کل تلک نظریں چرائے پھر رہے تھے آپ تو
آج ہنس کر مل رہیں ہیں کام تو بتلائیے
خط میں سب کچھ تھا مگر جو تھا ضروری رہ گیا
آئے ان کا پھر کبھی پیغام تو بتلائیے
وہ نظارے وہ بہاریں خوشبوؤں میں تر فضا
آپ کو بھی یاد ہے وہ شام تو بتلائیے
فرصتوں کے پل میں پیارے عشق کر کے دیکھنا
پھر میسر ہو کبھی آرام تو بتلائیے
صاحب مے کش ہے بادہ خوار ہے وہ نا مراد
آپ ہیں صادقؔ سے بھی بدنام تو بتلائیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.