ہجر کے ہونٹوں پہ آندھی کی دعا بھی آئے ہے
ہجر کے ہونٹوں پہ آندھی کی دعا بھی آئے ہے
شاخ ٹوٹے ہے تو پھر پنچھی بہت پچھتائے ہے
مست صحرا کی ہوائیں بندشیں سب چاک چاک
دل کسی بے نام دنیا کے ترانے گائے ہے
برف سے ڈھکنے لگی ہیں سب پہاڑی چوٹیاں
اپنے ہی آغوش میں ماحول سہما جائے ہے
کیا عجب برہم فضا ہے فصل گل جانے کو ہے
ہر شجر پر ایک دھانی درد سا لہرائے ہے
لا تعلق ہوں میں ان کالی صداؤں سے مگر
کرب سے شیرازۂ احساس بکھرا جائے ہے
اے نیازؔ اب کیا لکھوں اندھے سفر کے باب میں
گر کسی دلدل سے نکلوں تو سمندر آئے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.