ان دنوں یار کے کچھ ذہن نشیں اور بھی ہے
ان دنوں یار کے کچھ ذہن نشیں اور بھی ہے
جانتا ہے کہ نشست ان کی کہیں اور بھی ہے
ایک دل تھا سو دیا اور کہاں سے لاؤں
جھوٹ کہئے تو میں کہہ دوں کہ نہیں اور بھی ہے
ناز بے جا نہ کیا کیجیئے ہم سے اتنا
اسی انداز کا اک یار حسیں اور بھی ہے
کہیو اس غیرت لیلیٰ سے یہ پیغام صبا
پہلوئے قیس میں اک دشت نشیں اور بھی ہے
میرے بلوانے کا احسان جتاؤ نہ بہت
مہرباں ایک بت پردہ نشیں اور بھی ہے
ان ردیفوں میں غزل کیوں نہ ہو دشوار اکبرؔ
نا تراشیدہ کوئی ایسی زمیں اور بھی ہے
- کتاب : ہنگامہ ہے کیوں برپا (Pg. 69)
- Author : اکبر الہ آبادی
- مطبع : ریختہ بکس (2023)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.