انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق
آج ہی ہو جائے ہونا ہو جو کل انجام عشق
ابتدا میں درد فرقت موت ہے انجام عشق
اہل دل کو نا موافق ہے ہوائے بام عشق
بے خودی میں ڈبڈبا آئے ہیں آنسو آنکھ میں
المدد اے ضبط چھلکا چاہتا ہے جام عشق
اس کی الفت نے کیا رسوائے عالم کس قدر
انگلیاں اٹھتی ہیں جاتے ہیں جدھر بدنام عشق
کیوں نصیحت میں تری ناصح ہیں یہ دل سوزیاں
کیا ترے دل پر گزرتے ہیں مرے آلام عشق
چشم گریاں قلب نالاں کی شماتت قہر ہے
دونوں مل کر اک مجھی کو دیتے ہیں الزام عشق
حسرتیں بھی آج دل کے ساتھ ہی دم توڑ دیں
آگے پیچھے ساتھ والوں کا نہ ہو انجام عشق
بام پر آ کر ذرا بکھرائیے زلف دراز
پھیل جائے سارے عالم میں سواد شام عشق
اور کیا اعجاز ہوتا حسن لیلیٰ کے لیے
مر گیا مجنوں مگر زندہ ہے اب تک نام عشق
چار ہی دن میں نظرؔ تم اس قدر گھبرا گئے
آسماں سے کوئی پوچھے گردش ایام عشق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.