اس زیست کی اساس تھی جانے کہاں گئی
اس زیست کی اساس تھی جانے کہاں گئی
آنکھوں میں جو یہ پیاس تھی جانے کہاں گئی
ملتا نہیں ہے خود کا بھی سایا کہیں پہ اب
اک روشنی جو پاس تھی جانے کہاں گئی
سب کچھ تو لٹ چکا ہے فقط جسم ہے بچا
جینے کی جو یہ آس تھی جانے کہاں گئی
جانے کہاں کہاں سے کھلا ہے مرا بدن
اک شرم ہی لباس تھی جانے کہاں گئی
اتنا کسیلا ہو چکا ہے اب زباں کا سواد
لہجے کی جو مٹھاس تھی جانے کہاں گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.