اشارہ کر کے یہ کہتے ہیں مجھ سے او کیا ہے
اشارہ کر کے یہ کہتے ہیں مجھ سے او کیا ہے
نماز عشق میں ہوتا نہیں وضو کیا ہے
ستم تو دیکھیے چھوڑا زمانہ جس کے لئے
وہ کہہ رہا ہے مجھے آج یہ کہ تو کیا ہے
وہ جانتا ہے مری حسرتوں کے بارے میں
مگر یہ پوچھ رہا ہے کہ آرزو کیا ہے
جہاں بھی دیکھنا بس سخت بات کہہ دینا
تمہاری شوخ مزاجی ہے یا کہ خو کیا ہے
قبائیں اپنی سنبھالو تمہیں نظر نہ لگے
ہمارے چاک گریبان کو رفو کیا ہے
فریق دونوں بٹھائے تھے سامنے اپنے
تو پھر بتاؤ نا انجام گفتگو کیا ہے
طواف کرتی جو رہتی ہے میرے چہرے کا
تمہاری چشم پریشاں کو جستجو کیا ہے
طواف کرنا ہو مقصد تری گلی کا جسے
تو اس کے واسطے سردی ہے اور لو کیا ہے
صفات لاکھ ہوں اعجازؔ اس میں کیا حاصل
بجھا سکے نہ اگر پیاس آب جو کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.