اسی لیے تو یہ شامیں اجڑنے لگتی ہیں
اسی لیے تو یہ شامیں اجڑنے لگتی ہیں
کہ لو بڑھا کے ہوائیں سکڑنے لگتی ہیں
میں کیسے اپنے توازن کو برقرار رکھوں
قدم جماؤں تو سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں
یوں ہی نہیں مجھے دریا کو دیکھنے سے گریز
سنا ہے پانی میں شکلیں بگڑنے لگتی ہیں
اسی لیے تو ہوا اپنے گھر نہیں جاتی
کہ اس کے بعد یہ گلیاں اجڑنے لگتی ہیں
رہیں خموش تو ہونٹوں سے خوں ٹپکتا ہے
کریں کلام تو کھالیں ادھڑنے لگتی ہیں
اگر میں سانس بھی آہستہ سے نہ لوں تابشؔ
مرے بدن میں دراڑیں سی پڑنے لگتی ہیں
- کتاب : اگر میں شعر نہ کہتا (Pg. 67)
- Author : عباس تابش
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.