جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں
جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں
اس کی گلیوں سے گزرتے ہوئے گھر جاتے ہیں
جو ضروری تھا وہی بھولنا ہم بھول گئے
راستہ بند اگر ہو تو کدھر جاتے ہیں
اور تو خوف نہیں ہم کو کسی کا لیکن
کوئی اپنا سا نظر آئے تو ڈر جاتے ہیں
کسی طوفان کی افواہ اڑاتا ہے کوئی
اور ہم ڈر کے کنارے پہ اتر جاتے ہیں
جان دے کر بھی ترا وعدہ نبھانے والے
تیرے حق میں کوئی اچھا نہیں کر جاتے ہیں
سب کے کہنے پہ بہت حوصلہ کرتے ہیں تو ہم
حد سے حد اس کے برابر سے گزر جاتے ہیں
ٹھیک سے زخم کا اندازہ کیا ہے کس نے
بس سنا تھا کہ بچھڑتے ہیں تو مر جاتے ہیں
ہم بچھڑ کر بھی جئیں گے یہ تصور ہی نہ تھا
کیا خبر تھی کہ یہ لمحہ بھی گزر جاتے ہیں
راہ چلتے جو کچھ اک پل کو نظر آئے تھے
قربتیں ہوں تو وہی رنگ ٹھہر جاتے ہیں
جانے کیوں سوچتا رہتا ہوں مسلسل جس کو
ذہن سے اس کے خد و خال اتر جاتے ہیں
اب تو ہر زخم نیا ایک نئی راحت ہے
ایک بار آ کے کہیں ایسے ہنر جاتے ہیں
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 42)
- Author : شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 3rd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.