جہاں جہاں پر دروازہ تھا وہاں وہاں دیوار ہوئی
جہاں جہاں پر دروازہ تھا وہاں وہاں دیوار ہوئی
کچھ تو فضائے کوچۂ جاناں اپنے لیے ہموار ہوئی
تیرے علاوہ کسے بتائیں سمجھے کون کہ تیرے بغیر
اور اک رات آرام سے سوئے اور اک رات ادھار ہوئی
اک کشتی کا بوجھ ہے گہری نیند سے بوجھل لہروں پر
دل میں دریا پار اترنے کی خواہش بے دار ہوئی
آؤ مل کے دعائیں مانگیں اپنے کھیت اجڑنے کی
اب کے گھر گھر آگ بٹے گی فصل اگر تیار ہوئی
دیکھ عبادت گاہ کے دروازے پر بھیڑ فقیروں کی
اتنا چلے اور ایک قدم کی مسافت ان پر بار ہوئی
ان پودوں کو کس دریا کے پانی نے سیراب کیا
ایک ہی پھول میں رنگ سے خوشبو سات سمندر پار ہوئی
آج نہ جانے کیا گزرے گی تنہا سونے والوں پر
اک جاڑے کی رات اوپر سے بارش موسلا دھار ہوئی
- کتاب : اکیلے پن کی انتہا (Pg. 36)
- Author :جمال احسانی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.