جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا
ہم بھی زخم طلب تھے اپنی فطرت میں
وہ بھی کچھ سچا تھا اپنے نشانے کا
راہب اپنی ذات میں شہر آباد کریں
دیر کے باہر پہرا ہے ویرانے کا
وقت کی قینچی اس کے پروں کو کاٹ گئی
شمع سے رشتہ ٹوٹ گیا پروانے کا
برسے کیا بے فیض زمیں پر ابر کرم
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے دانے کا
صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول
دیکھ لیا خمیازہ پیاس بجھانے کا
بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا سمجھانے کا
طالبؔ ان کو پانا تو دشوار نہ تھا
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.