جھک گیا جن کا ترازو ظالموں کے سامنے
جھک گیا جن کا ترازو ظالموں کے سامنے
کیا دہائی دیجیے ان منصفوں کے سامنے
سرحدوں میں بانٹ دی اہل سیاست نے زمیں
دل جدا کب ہیں زمینی سرحدوں کے سامنے
بے وفائی نے تری دل کو ملال ایسا دیا
ڈوبتی ہیں کشتیاں جوں ساحلوں کے سامنے
ایسی آتش تھی ہوئے خاشاک ہم سرسبز تن
نام مت لے ہجر کا ہم دل جلوں کے سامنے
وقت نے چھینے ہیں جن سے خط و خال زندگی
ڈرتے ہیں جاتے ہوئے وہ آئنوں کے سامنے
عشق کی معجز نمائی پر ہمارا اعتقاد
آپ جھکتے ہیں ہوس کے شعبدوں کے سامنے
دید کا بس ایک لمحہ ہجر صدیوں پر محیط
نیند کا پل جیسے لاکھوں رتجگوں کے سامنے
پیٹھ دکھلاتے ہیں دشمن کو جو بزدل کی طرح
شیر بنتے ہیں وہ اپنے حامیوں کے سامنے
اور ہیں جو اس کی چوکھٹ پر جبیں سائی کریں
ہیچ ہے دنیا مگر دیدہ وروں کے سامنے
اس کے انداز مسیحائی کا نسریںؔ شکریہ
رکھ دیا ہے جس نے نشتر آبلوں کے سامنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.