جیتے جی بس وہ بت رہا ہم راہ
اب تو بندے کے ہے خدا ہم راہ
دل دیا اس کو پر یہ ڈرتا ہوں
دشمن اک دوست کے کیا ہم راہ
نہیں یاران رفتگاں کا نشاں
لے گئے کیا یہ نقش پا ہم راہ
اس میں کیا آپ کی ہے رسوائی
رہے گر مجھ سا پارسا ہم راہ
تجھے دیکھا جدھر نگاہ گئی
تھا تصور زبس ترا ہم راہ
رنج تنہائی لحد نہ رہا
یار کے غم کو لے لیا ہم راہ
شب کو جاتے ہو ساتھ لو مشعل
کہیے تو ہو یہ دل جلا ہم راہ
ہوئے بعد اپنے بے وفا عشاق
لے گئے یاں سے ہم وفا ہم راہ
تیری رفتار کا میں کشتہ ہوں
قبر تک آئیو ذرا ہم راہ
یہ دل بد گماں نہ دیکھ سکے
اگر اس بت کے ہو خدا ہم راہ
تا سلامت تو آئے اے قاصد
ٹھہر اتنا کروں دعا ہم راہ
اس نے تنہا مجھے نہ جانے دیا
غم فرقت کو کر دیا ہم راہ
ناتواں ہے بہت غبار مرا
تو ذرا رہیو اے صبا ہم راہ
رہی یاں گردش اور جامہ دری
کاش لاتے نہ دست و پا ہم راہ
گالیاں جیسے دیں ہیں دل لے کر
جائے گا یہ دیا لیا ہم راہ
جا نہ تنہا تو اے شہ خوباں
ہو وزیرؔ برہنہ پا ہم راہ
مأخذ:
Daftar-e-Fasahat (Pg. ebook-179 page-163)
-
مصنف:
خواجہ محمد وزیر
-
- اشاعت: 1847
- ناشر: مطبع مصطفائی، لکھنو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.