جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
ہزار بار جو یوسف بکے غلام نہیں
بھلا ہو کیا دل زاہد میں سوز الفت حق
کبھی جلانے کے قابل چراغ خام نہیں
گلا ہے چشم سخن گو سے خامشی کا ہمیں
دہن کے ہونے نہ ہونے میں کچھ کلام نہیں
تو آفتاب ہے زلف سیہ نہیں تو نہ ہو
چراغ روز کو کچھ احتیاج شام نہیں
عزیز عاشق گمنام کا ہے دل اس کو
نگیں وہ ہاتھ میں رکھتا ہے جس میں نام نہیں
بس ایک ہاتھ میں دو ہو کے پڑھ دوگانہ عشق
جو بے نماز ہے وہ قابل سلام نہیں
یہ سر جھکانا یہ منہ پھیرنا ہے مانع دید
مری نماز میں سجدہ نہیں سلام نہیں
وہ مجھ پہ مرنے لگی جو ہے میرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سوا اور انتقام نہیں
فراق یار میں دست سبو اڑاتے ہیں خاک
یہ گرد باد ہے گردش میں اپنا جام نہیں
نہ ہنس رلائے گا تجھ کو خمار بادۂ عیش
مے نشاط تو اس بزم میں مدام نہیں
پھنسے نہ قید تعلق میں جو کہ ہے آزاد
چمن میں طائر نکہت اسیر دام نہیں
وہ دل ہو چاک نہیں عشق کا نشاں جس میں
نگیں وہ ٹوٹے محبت کا جس میں نام نہیں
رہے گا ہجر کا دن کب کٹے اگر شب وصل
مدام روز قیامت کو بھی قیام نہیں
بنے جو بال کا پھندا تمہاری تیغ کا بال
تو مرغ جاں کے لئے بہتر اس سے دام نہیں
مے دو آتشۂ کفر و دیں سے خلق ہے مست
مگر شراب یہ ہم مشربو حرام نہیں
پکارا اپنا گدا کہہ کے مجھ کو اے شہ حسن
فقیر ہوں ترے در کا وزیرؔ نام نہیں
مأخذ:
Daftar-e-Fasahat (Pg. ebook-147 page-131)
-
مصنف:
خواجہ محمد وزیر
-
- اشاعت: 1847
- ناشر: مطبع مصطفائی، لکھنو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.