جو قتل ہو رہا تھا کوئی ناتوان تھا
جو قتل ہو رہا تھا کوئی ناتوان تھا
چپ چاپ دیکھتا تھا کھڑا حکمران تھا
یہ دور جس کا درد بیاں کر رہا ہوں میں
اک تیر ظلم کا تھا ستم کی کمان تھا
میرے لیے عجیب سی دنیا تھی سوچ کی
جس میں خدا کے واسطے پختہ مکان تھا
دونوں کے درمیان خلا فصل و نسل کا
آتشؔ اگر جوان تھا میں نوجوان تھا
میرے لیے غزل نہیں مچھلی کی آنکھ تھی
ہر شعر اس شکار میں ارجنؔ کا بان تھا
رغبت ہے اس کو کھیت میں موجود گھاس سے
پھر خود کشی نے مار دیا پھر کسان تھا
مرکز ہی ارتضیٰؔ سے جدا ہو سکا نشاطؔ
جس کا وہ یار غار تخلص تھا جان تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.