جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
دیکھ اس کو مرے تھرائے پاؤں
خط کا لایا نہ ادھر سے وہ جواب
یوں ہی قاصد کے میں تھکوائے پاؤں
بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد
اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں
ہاتھ سے یار کا دامن دے کر
ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں
نجد کا دیکھ کے صحرائے وسیع
آتے ہی قیس نے پھیلائے پاؤں
خوش خرامی ہے صنم! تجھ پر ختم
کبک و طوطی نے یہ کب پائے پاؤں
تو تو سوتا رہا عاشق نے ترے
رات بھر آنکھوں سے سہلائے پاؤں
مجھ مسافر کے کسی نے ہرگز
گرم پانی سے نہ دھلوائے پاؤں
مصحفیؔ ہم کو طرب سے کیا کام
بیٹھے ہیں گور میں لٹکائے پاؤں
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(hashtum) (Pg. 55)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.