کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی
چاہ میں اس بے الفت کی گھبراہٹ دل ہی کو تو نہیں
سارے حواسوں میں ہے تشتت جان بھی ہے گھبرائی ہوئی
گرچہ نظر ہے پشت پا پر لیکن قہر قیامت ہے
گڑ جاتی ہے دل میں ہمارے آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
جنگل جنگل شوق کے مارے ناقہ سوار پھرا کی ہے
مجنوں جو صحرائی ہوا تو لیلیٰ بھی سودائی ہوئی
دود دل سوزان محبت محو جو ہو تو عرش پہ ہو
یعنی دور بجھے گی جا کر عشق کی آگ لگائی ہوئی
چتون کے انداز سے ظالم ترک مروت پیدا ہے
اہل نظر سے چھپتی نہیں ہے آنکھ کسو کی چھپائی ہوئی
میرؔ کا حال نہ پوچھو کچھ تم کہنہ رباط سے پیری میں
رقص کناں بازار تک آئے عالم میں رسوائی ہوئی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1506
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.