کہاں کہاں پہ ہے ملتا کہاں نہیں ملتا
کہاں کہاں پہ ہے ملتا کہاں نہیں ملتا
زمین جانتی ہے آسماں نہیں ملتا
سمجھ سکا نہ کبھی کوئی کیفیت میری
میں وہ چراغ ہوں جس کا دھواں نہیں ملتا
سفر کٹھن ہے بہت سنگلاخ راہیں ہیں
سکون کے لئے اب سائباں نہیں ملتا
ٹھہر گئی ہے تلاطم میں کشتیٔ ہستی
میں کیا کروں مجھے آب رواں نہیں ملتا
میں اپنے راز سبھی کھول دوں کسی دل پر
کہوں میں کس سے کوئی راز داں نہیں ملتا
کبھی تو جھانک لیا ہوتا اپنے اندر بھی
تلاش کرتا ہے جس جا وہاں نہیں ملتا
صدائیں دیر سے آتی ہیں یاں بھی دیکھ تو لے
حرم پکار کے کہتا ہے واں نہیں ملتا
گمان چھوڑ دے منزل کی کچھ شرائط ہیں
بنا قبول کئے دو جہاں نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.