کیسا ملنا کیسا بچھڑنا یہ تو صرف حوالے تھے
کیسا ملنا کیسا بچھڑنا یہ تو صرف حوالے تھے
محرومی کے درد سجا کر میں نے دل میں پالے تھے
کوئی تمنا کوئی خواہش اب دل میں باقی نہ رہی
آنکھوں کے احوال نہ پوچھو جیسے خالی پیالے تھے
بکھر گیا میرا شیرازہ اس کے لفظوں کی گرمی سے
ساتھ قلم کے ان ہاتھوں نے کیسے تیر سنبھالے تھے
دھیرے دھیرے بڑھنے لگی تھی تاریکی ہر موسم کی
دنیا نے تو یہ دیکھا تھا میرے پاس اجالے تھے
درد کا کاجل آنکھوں میں تھا چادر تھی خاموشی کی
عمر تو ساری جلتے بیتی اور لبوں پر تالے تھے
مجھے سفر میں لوگ ملے تھے کیا میں بتاؤں کیسے تھے
جسموں پر چہرے اجلے تھے دل تو بے حد کالے تھے
اس کی کشتی اس کا ساحل موجیں اس کی اور نسیمؔ
وہ جب چاہے گا تو بچیں گے ہم طوفاں کے حوالے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.