کھڑکی کھولو کچھ تو یہاں بھی تازہ نرم ہوا آئے
کھڑکی کھولو کچھ تو یہاں بھی تازہ نرم ہوا آئے
منظر صحن چمن کا ابھرے بوئے درد ربا آئے
بے جاں فن میں جان سی آئے زخم تمنا تازہ ہو
یاد میں رنگ حنا کا لہکے رقص میں باد صبا آئے
ماہ گزیدہ رات ہے ساکت جیسے کوئی آئینہ
اوس کے سبزے پر گرنے کی سناٹے میں صدا آئے
فضل خزاں کے سوکھے پتے ہانپ رہے ہیں سائے میں
سایہ اپنے تہہ خانوں میں جائے انہیں پہنچا آئے
پہروں دل سے باتیں کر کے چین سے بیٹھے ہیں ایسے
جیسے جو کچھ بھی کہنا تھا دنیا بھر کو سنا آئے
نہر پہ سایہ بار شجر کے جال سے موجیں الجھی ہیں
کوئی حسنؔ اس الجھا دے کوئی جائے ذرا سلجھا آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.