خرد کی شمعوں کے آسرے پر حیات کی شب بسر نہ ہوگی
خرد کی شمعوں کے آسرے پر حیات کی شب بسر نہ ہوگی
ابھی تو روشن ہے رات لیکن یہ روشنی تا سحر نہ ہوگی
نہ خار ہوں گے جہاں نہ پتھر وہ عشق کی رہگزر نہ ہوگی
جنوں کو تسکیں نہ دے سکے گی وہ راہ جو پر خطر نہ ہوگی
سجائی تھی ہم نے بزم ساقی کہ دور جام شراب ہوگا
یہ کیا خبر تھی کہ میکدے میں ہمیں پہ تیری نظر نہ ہوگی
پیام بیمار غم ہے قاصد ٹھہر ٹھہر کے بیان کرنا
وہ حال پوچھیں تو بس یہ کہنا ضرورت چارہ گر نہ ہوگی
نہ کہنے والے کبھی تھکے ہیں نہ سننے والوں کو نیند آئی
یہ عشق و الفت کی داستاں ہے یہ داستاں مختصر نہ ہوگی
بجا سہی آپ کا یہ طعنہ دعا میں تاثیر کیوں نہیں ہے
یہ سوچئے آپ کیا کریں گے دعا اگر بے اثر نہ ہوگی
مرا نشیمن بھی جل چکا ہے اجڑ چکی شاخ آشیاں بھی
عقیلؔ اب جانب گلستاں نگاہ برق و شرر نہ ہوگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.