کھوئے نہ کس طرح سے ترا اعتبار جھوٹ
کھوئے نہ کس طرح سے ترا اعتبار جھوٹ
اک سچ اگر زبان پہ ہے تو ہزار چھوٹ
کرتا ہے آدمی کو بہت بے وقار جھوٹ
چھڑوا دے مجھ سے اے مرے پروردگار جھوٹ
حق حق نہ کس طرح سے کہوں ان سے حال دل
سچ کا تو اعتبار نہیں درکنار جھوٹ
چھپتا ہے اوس صنم سے کہیں عشق ساختہ
عیسیٰ سے کوئی خاک بتائے بخار جھوٹ
میں نقش پائے غیر کو پہچانتا ہوں خوب
کھاؤ نہ میرے سر کی قسم اے نگار جھوٹ
دل کی تڑپ سے رات کو بجلی بھی مات تھی
کہتا نہیں ہے یار ترا بے قرار جھوٹ
کیوں کر یقیں ہو تیرے دہان و کمر کا یار
ثابت کیا ہے میں نے ترا لاکھ بار جھوٹ
چھوڑوں گا میں رکاب نہ ہو کر غبار بھی
اس میں سمجھ ذرا بھی نہ او شہسوار جھوٹ
کیا فائدہ اگر ہو کوئی بے چھری حلال
کرتے ہو کیوں بہانۂ سید و شکار جھوٹ
حق حق رہے زبان پہ منصور کی طرح
بولے نہ دار پر بھی ترا جاں نثار جھوٹ
عاشق کو روتے دیکھ کے وعدہ وفا کیا
چھوڑ آتی آج جا کے وہ دریا کے پار جھوٹ
اللہ جانتا ہے جو بندے بتوں کے ہیں
بولیں نہ مر کے بھی وہ میان مزار جھوٹ
سچ مچ کیا جو وعدۂ وصل آج یار نے
منہ سے نکل گیا مرے بے اختیار جھوٹ
سچ تو یہ ہے کہ خوف جنوں سے ہوا ہو روح
سن لوں جو آمد آمد فصل بہار جھوٹ
لانا یقیں نہ کیفؔ کے اقوال و فعل کا
گفتار اس کی جھوٹی ہے سب کاروبار جھوٹ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.