Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی

شہزاد احمد

خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی

شہزاد احمد

MORE BYشہزاد احمد

    خود ہی مل بیٹھے ہو یہ کیسی شناسائی ہوئی

    دشت میں پہنچے نہ گھر چھوڑا نہ رسوائی ہوئی

    سانس تک لینے نہیں دیتا تھا آوازوں کا شور

    جب پرندے اڑ گئے سنسان تنہائی ہوئی

    لے چلا ہم کو بلندی کی طرف دریا کا خوف

    کیا کریں گے ہم پہاڑوں پر اگر کائی ہوئی

    اپنی گہرائی کی جانب جھک رہا ہے آسماں

    ڈھونڈنے نکلی ہے خود کو آنکھ گھبرائی ہوئی

    رات بھر دنیا رہی ہے تیرگی کے سحر میں

    صبح کی پہلی کرن آنکھوں میں بینائی ہوئی

    پھر گھرا ہوں حلقۂ یاراں میں مجرم کی طرح

    پھر کہی ہے داستاں سو بار دہرائی ہوئی

    ہاتھ پھیلاؤں تو کس کی سمت اپنا رخ کروں

    آسماں دشمن زمیں بندوں سے اکتائی ہوئی

    لوگ گلیوں میں نکل آئے ہیں بچوں کی طرح

    سر پہ جب ٹوٹے ستارے بزم آرائی ہوئی

    سائے کی رنگت فضا کی روشنی میں گھل گئی

    اب کے چہروں پر پڑی ہے دھوپ کجلائی ہوئی

    آخر کار اپنی آنکھیں پھوڑ لیں تصویر نے

    ساری دنیا جب ان آنکھوں کی تمنائی ہوئی

    آنکھ سے ہٹتے نہیں گزری ہوئی دنیا کے رنگ

    ہم نے ان لمحوں کو ہے زنجیر پہنائی ہوئی

    مأخذ :
    • کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 485)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے