خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے
خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے
یوں دربدر ہوئے کہ زمیں کے نہیں رہے
رشتے رفاقتوں کے رقابت میں ڈھل گئے
دیوار و در بھی اپنے مکیں کے نہیں رہے
یہ کوزہ گر یہ چاک یہ مٹی یہ آگ سب
زعم ہنر میں دیکھ کہیں کے نہیں رہے
ہجرت زدہ لباس میں پھرتے ہیں دربدر
رہنا تھا جس نگر میں وہیں کے نہیں رہے
دہشت کو بانٹتے رہے لے کر خدا کا نام
خود ساختہ جہاد میں دیں کے نہیں رہے
ایسی چلی ہے باد مخالف کہ دور تک
نقش قدم بھی خاک نشیں کے نہیں رہے
خوابوں کے زخم آنکھ سے رسنے لگے غزلؔ
یہ درد جاں بھی قلب حزیں کے نہیں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.