خدا جانے کہاں یہ فکر کا رہوار لے جائے
خدا جانے کہاں یہ فکر کا رہوار لے جائے
سمندر میں ڈوبا دے یا سمندر پار لے جائے
لگانا ہو جسے اپنے سفینے کو کنارے سے
میں دے دوں گا مگر وہ مانگ کر پتوار لے جائے
میں یوسف تو نہیں لیکن زلیخائے جہاں سن لیں
نہ ہو جس کو یقیں مجھ کو سر بازار لے جائے
بھکاری بن کے آتا ہوں کبھی یہ آپ نے سوچا
کہاں تک آپ کے در سے کوئی انکار لے جائے
وہ میری نفرتوں سے ختم کر کے واسطہ اپنا
کوئی دشمن بھی ہو میرا تو مجھ سے پیار لے جائے
یہ باتیں ہیں الگ سانسیں مری تھمنے کو ہیں لیکن
میں جب تک ہوں دوا صحت کی ہر بیمار لے جائے
یقیں ہے جیت لے گا دل وہ سارے سننے والوں کا
اگر محفل میں غیبیؔ کو کوئی اک بار لے جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.