خدا کے واسطے کچھ دن ہو مہرباں صیاد
نہ کر بہار میں مجھ کو رواں دواں صیاد
بڑھی ہے حد سے سوا گرمی فغاں صیاد
کہ اب تو خشک ہوئی جاتی ہے زباں صیاد
گزشتہ حال مجھے اپنا یاد کرنے دے
سناؤں گا تجھے پھر اپنی داستاں صیاد
قفس میں دیکھ کے افسردہ مہربانی کی
سنا رہا ہے مجھے اپنی داستاں صیاد
غرض یہ ہے کہ رہوں حشر تک اسیر ترا
مرے پہ کاٹنا میری نہ بیڑیاں صیاد
اسیر کہتے ہیں سب میری بد زبانی سے
عجب نہیں کہ ابھی کاٹ لے زباں صیاد
پروں کو کھول کے اس کو دعائیں دیتا ہے
جو کچھ اسیر پہ ہوتا ہے مہرباں صیاد
زمانہ قید میں گزرا تو کی ہے دل جوئی
کہ رفتہ رفتہ ہوا ہے مزاج داں صیاد
اسیر تو نے کیا ہے تجھی سے کہنا ہے
برا بھلا مجھے کہنا ہے باغباں صیاد
کیا ہے قید مگر یہ بتا خدا کے لئے
چمن سے لے کے مجھے جائے گا کہاں صیاد
قفس کے پاس اگر آ کے بیٹھ دم بھر کو
مزے کی تجھ کو سناؤں گا داستاں صیاد
چمن سے دشت میں جانا ہے بلبلوں کا محال
سنا ہے راہ میں لوٹے گا کارواں صیاد
اسے شجر کو گرایا ہے باغ میں تو نے
کہ جس کی شاخ پہ تھا میرا آشیاں صیاد
نہ آشیاں ہے نہ میں ہوں نہ ہے قفس باقی
سمجھ سمجھ کے مٹایا مرا نشاں صیاد
یقین ہے کہ کسی روز دل کو تھامے گا
سنی اسیروں کی چھپ چھپ کے داستاں صیاد
جو اب زباں سے کروں جل کے خاک ہو جائیں
برائے نام قفس کی ہیں تیلیاں صیاد
کرے اسیروں پہ جو ظلم تجھ کو زیبا ہے
زمین تیری ہے تیرا ہے آسماں صیاد
ہوئی ہے قید میں مدت کہ کچھ بھی یاد نہیں
کہ تھی بہار گلستاں میں یا خزاں صیاد
اثر تو دیکھ میں ذکر بہار کرتا ہوں
کہ سبز ہوں گی قفس کی بھی تیلیاں صیاد
شفیقؔ ضبط کیا ایسا آہ سوزاں کو
جگر سے اب مرے اٹھنے لگا دھواں صیاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.