کس کو یقین آئے گا یارو میرا مسیحا قاتل ہے
کس کو یقین آئے گا یارو میرا مسیحا قاتل ہے
دل کے سینکڑوں ارمانوں کا ایک اکیلا قاتل ہے
جب تک میرے خون دل کی آنکھوں سے برسات نہ ہو
کیسے پیاس بجھے گی اس کی خون کا پیاسا قاتل ہے
کون سمجھ سکتا ہے اس کی فطرت کی سفاکی کو
چہرہ ہے معصوموں جیسا بھولا بھالا قاتل ہے
شہر نگاراں میں اب اپنے جان و دل کی خیر نہیں
جو بھی نظر ہے رہزن دل ہے چہرہ چہرہ قاتل ہے
زیست کے اس عالم میں اپنے قتل کا دوں الزام کسے
دن قاتل ہیں راتیں قاتل لمحہ لمحہ قاتل ہے
ہلکا سا احساس ہے زخمی یہ تو ضیاؔ کچھ بات نہیں
اوچھے وار کرے ہے ہم پر ظرف کا اوچھا قاتل ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.