کسی کے کام آنے لگ گئے ہیں
کسی کے کام آنے لگ گئے ہیں
سو ہم بھی کچھ کمانے لگ گئے ہیں
یہ جھیلیں بھر گئی ہیں بارشوں میں
پرندے آنے جانے لگ گئے ہیں
ہوائے شہر ادھر بھی آ گئی ہے
یہاں بھی کارخانے لگ گئے ہیں
یہ کوئل گا رہی ہے ہجر اپنا
سو ہم بھی گنگنانے لگ گئے ہیں
وہی اک شعر مجھ میں سانس لے گا
جسے کہتے زمانے لگ گئے ہیں
شکاری دانہ لے کر آ گیا ہے
پرندے پھڑپھڑانے لگ گئے ہیں
جہاں ہم دھوپ سے کرتے تھے باتیں
وہاں اب شامیانے لگ گئے ہیں
- کتاب : دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے (Pg. 18)
- Author : سنیل آفتاب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2024)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.