کوئی صورت خط ادراک پر آئی نہیں ہے
کوئی صورت خط ادراک پر آئی نہیں ہے
ابھی تک اپنی مٹی چاک پر آئی نہیں ہے
جو موج خوں ہمکتی ہے ازل سے قعر دل میں
ابھی تک دیدۂ نمناک پر آئی نہیں ہے
مسافت میں ہمارے ہم سفر ٹھہرے بگولے
ذرا سی گرد بھی پوشاک پر آئی نہیں ہے
اسے قرنوں زمانہ اوڑھ کر پھرتا رہا ہے
شکن بھی چادر افلاک پر آئی نہیں ہے
سمندر کرب کا یوں تو بہت بپھرا ہوا تھا
تھکن لیکن ابھی پیراک پر آئی نہیں ہے
گمان ہست کیا ہوتا کہ جب ہم کو یقیں تھا
کہ اپنی خاک اب تک خاک پر آئی نہیں ہے
در و دیوار پر ویرانیاں قائم ہیں اطہرؔ
نمو کی رو وجود تاک پر آئی نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.