کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے
اس کی تصویر ہٹا دی جائے
ڈھونڈھنے میں بھی مزہ آتا ہے
کوئی شئے رکھ کے بھلا دی جائے
نام لکھ لکھ کے ترا کاغذ پر
روشنائی بھی گرا دی جائے
ناؤ کاغذ کی بنا کر اس کو
بہتے پانی میں بہا دی جائے
رات کو چپکے سے اک اک گھر کی
کیوں نہ زنجیر لگا دی جائے
نیند میں چونک پڑے گا کوئی
آؤ اس در پہ صدا دی جائے
آخری سانس مہک جائے گی
اس کے دامن کی ہوا دی جائے
سب کے سب یار چلے آتے ہیں
آج کس کس کو دعا دی جائے
علویؔ ہوٹل میں ٹھہر سکتا ہے
کیوں اسے گھر میں جگہ دی جائے
- کتاب : لفافے میں روشنی (Pg. 78)
- Author : محمد علوی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.