کیا عجب مرنے پہ بھی عشق کی خو ساتھ رہے
کیا عجب مرنے پہ بھی عشق کی خو ساتھ رہے
سوکھ بھی جائے اگر پھول تو بو ساتھ رہے
کانپتے ہاتھوں سے دامان تقدس نہ چھٹے
میکدے جاؤں تو اک ظرف وضو ساتھ رہے
اے خیال رخ جاناں مری جاں تجھ پہ نثار
دونوں عالم مجھے حاصل ہیں جو تو ساتھ رہے
ہم گدائے در مے خانہ کو ہے کام سے کام
جام و ساغر نہ سہی ایک عدو ساتھ رہے
کچھ تو انجام محبت کی خبر ہو اس کو
میرا مدفن جو مٹاؤ تو کدو ساتھ رہے
چھوڑ جاتا ہے کوئی اپنی ضرورت کی چیز
جاؤں مسجد میں جو میں جام و سبو ساتھ رہے
اشک خونین کا بھی تار نہ ٹوٹے اے دل
زخم غم کے لئے اک تار رفو ساتھ رہے
قطرۂ اشک نہ خالی رہے رنگینی سے
جب کبھی آنکھ سے نکلے تو لہو ساتھ رہے
تجھ پہ کھل جائے ترے دل کی حقیقت زاہد
ایک دم بھی جو کوئی آئینہ رو ساتھ رہے
تیر صیاد نہ نکلے ترے دل سے بیدلؔ
توڑ کر نکلے بھی دل کو تو لہو ساتھ رہے
مأخذ:
نوائے بیدل (Pg. 191)
- مصنف: بیدل عظیم آبادی
-
- ناشر: دی آزاد پریس، پٹنہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.