کیا سرگزشت کہتے اک ناوک نظر کی
کیا سرگزشت کہتے اک ناوک نظر کی
کاوش عذاب جاں ہے اپنے دل و جگر کی
فرقت میں تیری ہم نے یوں زندگی بسر کی
مر مر کے شب گزاری رو رو کے ہر سحر کی
اک برق ناز چمکی خلوت سے جب نظر کی
ہے خوب پردہ داری اس شوخ پردہ در کی
ہم خود ہی ڈھونڈ لیں گے اے خضر اپنی منزل
حاجت نہیں ہے ہم کو گم گشتہ راہبر کی
کیوں کر بچائے کوئی معصوم دل کو اپنے
اک اک ادا غضب ہے اس شوخ فتنہ گر کی
قید قفس میں اب تک بھولے ہوئے تھے گلشن
پھر یاد آ رہی ہے صیاد بال و پر کی
خلوت نشیں ہے مانا وہ شاہد خود آرا
ہر سو اسی کو پایا جب غور سے نظر کی
دعوائے اتقا تھا زاہد سے پارسا کو
مدہوش کر کے چھوڑا ساقی نے جب نظر کی
پرکیف روح پرور رشک شراب کوثر
اک گھونٹ تو بھی پی لے زاہد کھنچی ہے گھر کی
صوفیٔ پاک طینت مفتیٔ با شریعت
کرتے ہیں خاک بوسی پیر مغاں کے در کی
ہر نقش پا پہ سجدے ثابتؔ یوںہی کیے جا
مل جائے گی کبھی تو خاک ان کے رہگزر کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.