مانا گل و گلزار پہ رعنائی وہی ہے
مانا گل و گلزار پہ رعنائی وہی ہے
منظر تو بدل دے کہ تماشائی وہی ہے
اجڑا تھا ابھی کل ہی تمناؤں کا بازار
اور آج یہاں زینت و زیبائی وہی ہے
چوما ہے یہاں میں نے ہر آواز کا چہرہ
ان گونجتی گلیوں سے شناسائی وہی ہے
خوشبو کی طرح اڑ کے پہنچتی ہے خبر بھی
ہرچند نیا شہر ہے رسوائی وہی ہے
اگلی سی مری آنکھ میں بینائی نہیں وہ
اے آب تماشا تری گہرائی وہی ہے
ہلچل نہ ہوئی گاؤں کے تالاب میں اک دن
ٹھہرا ہوا پانی ہے وہی کائی وہی ہے
دریافت ہوئیں دہر میں کیا کیا نہ زمینیں
اس دل کو مگر دعوائے یکتائی وہی ہے
اس دھوپ میں اک سوچ کا سایہ رہا سر پر
اٹھی ہے جو اندر سے گھٹا چھائی وہی ہے
کہتا ہوں ظفرؔ شعر تو سہتا ہوں بدن پر
تنہائی وہی قافیہ پیمائی وہی ہے
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 31)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.