متاع حسن عیش جاوداں معلوم ہوتی ہے
متاع حسن عیش جاوداں معلوم ہوتی ہے
تری رونق بہار بے خزاں معلوم ہوتی ہے
زبان عشق چپ ہے راز الفت آشکارا ہے
خموشی ترجمان بے زباں معلوم ہوتی ہے
غم دنیا و دیں سے دل کو اس نے کر دیا فارغ
تری الفت انیس بے کساں معلوم ہوتی ہے
خوشی کے چند دن تھے جو خوشی میں کٹ گئے لیکن
حیات غم حیات جاوداں معلوم ہوتی ہے
کبھی جو آرزو نقش و نگار لوحۂ دل تھی
وہی سینہ پہ اب سنگ گراں معلوم ہوتی ہے
ابھی ہے دور سرحد لذت درد نہانی کی
ابھی تو لذت درد نہاں معلوم ہوتی ہے
بھرے آتے ہیں آنسو سن کے حال گریۂ بلبل
ارے دل یہ تو اپنی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہجوم غم کی دل پر آج کل ایسی کشاکش ہے
متاع زندگی بار گراں معلوم ہوتی ہے
یہ ڈر ہے راز دل افشا نہ ہو جائے کہیں یارب
نگاہ یار اب کچھ مہرباں معلوم ہوتی ہے
خدا معلوم کتنے اور کیسے غم اٹھائے ہیں
ہنسی بھی درد مندوں کی فغاں معلوم ہوتی ہے
کیا انکار بھی اس نے تو امیدیں بڑھیں دل کی
یہ اس کی شوخیٔ حسن بیاں معلوم ہوتی ہے
زباں پر حال دل آئے جلیلؔ اس کی ضرورت کیا
مری ہستی مجسم داستاں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.