متاع زیست کا محور نہ قید ہو جائے
متاع زیست کا محور نہ قید ہو جائے
ہتھیلیوں میں مقدر نہ قید ہو جائے
میں اب کی بار بہت کھل کے رو نہیں پایا
یہ سانحہ مرے اندر نہ قید ہو جائے
قفس سے نکلے پرندے کی لے تو لوں تصویر
مگر رہائی کا منظر نہ قید ہو جائے
ابھی تو خشک زمینوں پہ لوگ قابض ہیں
پھر اس کے بعد سمندر نہ قید ہو جائے
وہی دھواں جو اگلتے ہیں گھر کے سب افراد
اسی دھوئیں میں مرا گھر نہ قید ہو جائے
برش اٹھائے ہوئے سوچ میں ہوں گم اظہرؔ
ترے خیال کا پیکر نہ قید ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.