موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی
موت آئی کتنی بار نئی زندگی ہوئی
نکلی مگر نہ پھانس جگر میں چھپی ہوئی
اب ہو بھی کوئی مائل لطف و کرم تو کیا
ہوتی نہیں شگفتہ طبیعت بجھی ہوئی
موسم یہی بہار کا ہے عشق کے لئے
آتی نہیں پلٹ کے جوانی گئی ہوئی
کچھ زہر کا نشہ ہے تو کچھ تھرتھری سی ہے
رگ رگ میں آج ہے کوئی شے پیرتی ہوئی
آب حیات بھی کوئی چھڑکے اگر تو کیا
بجھتی نہیں ہے آگ جگر میں لگی ہوئی
آئی ہے سانس دوسری نشتر لئے ہوئے
اک سانس میں ہمیں جو مسرت کبھی ہوئی
ہر روز ایک درد نیا دل میں ہے جگرؔ
ہر رات سوچتے ہیں کہ حد درد کی ہوئی
صحرا میں چل کے غم کو بھلا دو اٹھو جگرؔ
دیکھو وہ آ رہی ہے گھٹا جھومتی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.