میرے وجود کی تنہائی میں کھلے ہیں تیرے معطر ہاتھ
میرے وجود کی تنہائی میں کھلے ہیں تیرے معطر ہاتھ
جیسے جھیل پہ رقص کناں ہوں نیل کمل کے منور ہاتھ
اس کے حسن میں ڈوب کے دیکھو تو یہ لگتا ہے جیسے
آنکھوں کے اندر ہیں آنکھیں اور ہاتھوں کے بھیتر ہاتھ
خالق کا اپنی تخلیق سے ساتھ نہیں چھٹتا ہے کبھی
جیسے خود پتھر کے صنم میں رہ جاتے ہیں ڈھل کر ہاتھ
بازاروں میں کیسا کیسا مشک چھپائے پھرتا ہوں
بس جاتے ہیں جب خوشبو میں تیری زلف کو چھو کر ہاتھ
میرا اپنا ہی تو لہو ہے کوئی انہیں قاتل نہ کہے
لا میرے زخموں پر رکھ دے یار اپنے یہ ستمگر ہاتھ
یہ بے نور آنکھوں سا کاغذ کب سے ہے ویران پڑا
بند نزول شعر و سخن ہے افسردہ ہیں پیمبر ہاتھ
میرے فن کو پرکھنے والو پہلے کلام میں ڈوبو تو
ساحل بحر پہ ڈھونڈھے سے کب زیبؔ آتا ہے گوہر ہاتھ
- کتاب : دھیمی آنچ کا ستارہ (Pg. 36)
- Author :زیب غوری
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.