مری نظر کو عبث تو برائی دیتی ہے
جو شے بری ہے بری ہی دکھائی دیتی ہے
یہ خاک کیسی بنائی ہے اے خدا تو نے
ہر ایک رنگ میں یکتا دکھائی دیتی ہے
ہمارے دل ہیں سلامت تو پھر ہر اک لمحہ
یہ ٹوٹنے کی صدا کیوں سنائی دیتی ہے
یہ روز روز کا ملنا بھی ٹھیک ہے لیکن
مزا تو یار تری کم نمائی دیتی ہے
سنائی دیتی نہ تھی جن کو کل مری فریاد
اب ان کو میری خموشی سنائی دیتی ہے
ہزار گرد اڑاتا پھرے وہ نفرت کی
مجھے تو صرف محبت دکھائی دیتی ہے
کسی لحاظ سے مجرم نہیں اگر دنیا
تو بار بار یہ پھر کیوں صفائی دیتی ہے
دل اس کا جرم تو کرتا ہے ہر گھڑی نجمیؔ
اور اس کی آنکھ برابر صفائی دیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.