محبت اہتمام دار بھی ہے
محبت اہتمام دار بھی ہے
محبت مصر کا بازار بھی ہے
محبت مستقل آزار بھی ہے
یہ گلشن وادیٔ پر خار بھی ہے
وہ طوفاں جو ڈبو دیتا ہے اکثر
اسی طوفاں سے بیڑا پار بھی ہے
خودی کی حد میں ہے مجبور انسان
خودی مٹ جائے تو مختار بھی ہے
حریم دل میں بھی ہے جلوہ فرما
مرا یوسف سر بازار بھی ہے
نہ کیوں مر جائیے مرنے سے پہلے
یہی ہونا مآل کار بھی ہے
مرا چاک گریباں سینے والے
یہ دل میں زخم دامن دار بھی ہے
زمانے کو شکایت ہے وفا کی
زمانہ خود وفا بیزار بھی ہے
مری ناکامیاں شاہد ہیں اس کی
میں اب سمجھا کہ تو مختار بھی ہے
مرے دل کی تمنائیں نہ پوچھو
یہ ناداں عافیت بیزار بھی ہے
کوئی حد بھی وفا کے امتحاں کی
ستانے کا کوئی معیار بھی ہے
یہ کہتی ہے صدائے لن ترانی
کسی میں طاقت دیدار بھی ہے
نہیں بہکا کبھی مخمورؔ پی کر
یہ دیوانہ بھی ہے ہشیار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.