مجھے اب ہوائے چمن نہیں کہ قفس میں گونہ قرار ہے
یہ تو پچھلے سال جو آئی تھی وہی چار دن کی بہار ہے
ہیں جگر میں داغ لہو ہے دل ہیں تر آنکھیں سینہ فگار ہے
یہی رنگ و بو یہی فصل گل یہی بے کسوں کی بہار ہے
کوئی حسب حال خطاب ہو مرے دل کو دل نہ کہا کرو
اسے کیوں بہار کا نام دو جو خزاں نصیب بہار ہے
ہیں پیام آمد شام غم رخ آفتاب کی زردیاں
یہ تمام دن تو کچھ اور تھا مگر اب چراغ مزار ہے
جو گلوں نے چہرہ پہ مل لیا جو کلی نے مانگ میں بھر لیا
وہ گھڑی بھی آئے گی دیکھنا یہی رنگ خون بہار ہے
فقط ایک خاک کا ڈھیر ہے یہ بغور دیکھ رہے ہو کیا
سر لوح لکھا ہوا ہے کچھ چلو بھی کسی کا مزار ہے
جو ترے پسینہ کی بو نہ دے تو کچھ اور ہے گل تر نہیں
جو تڑپ نہ دے ترے حسن کی وہ بہار ننگ بہار ہے
یہ مقام عشق ہے کون سا یہ ہیں کیسی صبر کی منزلیں
نہ تڑپ ہے دل میں نہ درد ہے نہ سکون ہے نہ قرار ہے
یہ صدا تو ہے وہی دکھ بھری مرے کان جس سے ہیں آشنا
ذرا چپ رہو مجھے سننے دو یہ تو میرے دل کی پکار ہے
ترے دل کی بھی نہ کلی کھلے ترے ہاتھ ٹوٹیں خدا کرے
جسے توڑے لیتا ہے باغباں یہی پھول جان بہار ہے
یہ عجب مسرت عشق ہے جو اک اشک بن کے ٹپک پڑی
یہ سراجؔ میرا نصیب ہے کہ خوشی بھی غم بہ کنار ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.