مطرب سے نوا روٹھ گئی ہے تو مجھے کیا
یہ شمع اگر جل کے بجھی ہے تو مجھے کیا
میں کوہ و بیاباں کا چہکتا ہوا پنچھی
ہر شاخ چمن پھولی پھلی ہے تو مجھے کیا
موسم کی حسیں تال پہ ناچیں گی فضائیں
یہ بات کسی گل نے کہی ہے تو مجھے کیا
خوشبو سے ہے خالی ابھی دامان تصور
تو باغ تمنا کی کلی ہے تو مجھے کیا
ہے فخر ابھی اپنے بڑھاپے کے لہو پر
شیشے میں ترے لال پری ہے تو مجھے کیا
اے دوست میں کب تھا غم حالات کے تابع
حالات کی رفتار وہی ہے تو مجھے کیا
مقصود فقط دست تصور کی زیارت
تصویر میں رنگوں کی کمی ہے تو مجھے کیا
دم توڑ دیا ذوق تمنا نے تڑپ کر
قاتل کی نظر جام بنی ہے تو مجھے کیا
ہوتی ہے ادا رسم کہیں میری بلا سے
پروان نئی ریت چڑھی ہے تو مجھے کیا
میں پیار کے زخموں کا پرستار ہوں گل چیں
ادراک کی شاداب کلی ہے تو مجھے کیا
خاطر میں تلاطم کو بھی لاتا نہیں ہمدم
کشتی کوئی ساحل پہ لگی ہے تو مجھے کیا
روشن ہے مرے دل میں تری یاد کا سورج
جگنو کی شب غم سے ٹھنی ہے تو مجھے کیا
مفتیؔ مری آنکھوں نے فقط اشک بہائے
حاصل تجھے دنیا کی خوشی ہے تو مجھے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.