نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے
نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے
خوشی کے انتظار میں جو روز و شب گزر گئے
ہر آنے والے شخص کا دباؤ میری سمت تھا
میں راستے سے ہٹ گیا تو سب کے سب گزر گئے
مرے لیے جو وقت کا شعور لے کے آئے تھے
مجھے خبر ہی تب ہوئی وہ لمحے جب گزر گئے
سمندروں کے ساحلوں پہ خاک اڑ رہی ہے اب
جو تشنگی کی آب تھے وہ تشنہ لب گزر گئے
مگر وہ تیرے بام و در کی عظمتوں کا پاس تھا
تری گلی سے بے ادب بھی با ادب گزر گئے
وفور انبساط میں کسے رہیں گے یاد ہم
اگر جہان رنگ و بو سے بے سبب گزر گئے
بجا ہے تیرا یہ گلہ کہ میں بہت بدل گیا
دراصل مجھ پہ حادثے ہی کچھ عجب گزر گئے
کہیں کہیں تو راہ بھی خود ایک سد راہ تھی
مگر ہم ایسے سخت جاں بہ نام رب گزر گئے
ہوئی نہ قدر مہر کی خلوص رائیگاں گیا
رہ وفا سے رشکؔ ہم وفا طلب گزر گئے
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 306)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23)
- اشاعت : Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.