نہ تو جینے کو نہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
نہ تو جینے کو نہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
کیا کہوں کیا مرا کر جانے کو جی چاہتا ہے
کچھ بھی تو ایسا نہیں جس سے سکوں دل کو ملے
ان دنوں یوں ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے''
نہ تو ساحل پہ کھڑے رہنے سے کچھ حاصل ہے
اور نہ پانی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
بزم میں ان کی ہو جانا تو جھجھکنا کیسا
مت رکو جاؤ اگر جانے کو جی چاہتا ہے
زلف ہے اپنی پریشان تو وہ آئنہ رو
سامنے رکھ کے سنور جانے کو جی چاہتا ہے
حد مقرر ہو جہاں عشق کی وہ عشق نہیں
آج تو حد سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
نہ حسنؔ اپنا نہ بیگانہ ہو دیوانہ جہاں
اسی صحرا سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.