نگاہ برق تھی اب تک تو میرے ہی نشیمن پر
نگاہ برق تھی اب تک تو میرے ہی نشیمن پر
مگر اب کچھ تڑپ سی دیکھتا ہوں سارے گلشن پر
کہوں کس طرح خون بے گنہ اور ان کی گردن پر
نظر آتے ہیں لیکن کچھ لہو کے داغ دامن پر
کسی بے درد کو درد آشنا کرنا بھی کیا جانیں
وہ آنسو جو بہت امڈے تو گر پڑتے ہیں دامن پر
کہاں اب پیرہن کی خیر گلشن بھی بیاباں ہے
یہاں بھی کانٹے کانٹے کی نظر ہے جیب و دامن پر
اسے یہ کیا خبر تھی تابش خورشید کیا ہوگی
جو شبنم صبح تک سوتی رہی پھولوں کے دامن پر
وہی اب چارہ ساز درد انساں بن کے بیٹھے ہیں
وہ جن کی زندگی خود داغ ہے انساں کے دامن پر
ستم ہے یا کرم اس بے پر و بالی پہ کیا کہئے
قفس لٹکا دیا صیاد نے شاخ نشیمن پر
جب ان کی ہر ادا پر خود ہمارا دم نکلتا ہو
تو پھر کس منہ سے کہیے خون اپنا ان کی گردن پر
ادھر ہو آشیاں سازی ادھر ہو آشیاں سازی
کہاں تک بجلیاں گرتی ہی جائیں گی نشیمن پر
وہاں جب حسب استعداد ہے انعام کی بارش
نہیں پھر کیوں نگاہ لطف ہو جاتی ہے دشمن پر
الٰہی ختم شب پر بھی سویرا ہو نہیں سکتا
دھندلکا سا ابھی چھایا ہے روئے صبح گلشن پر
خلوص حق پرستی ہے نہ جوش بت پرستی ہے
پڑی ہے اوس کیسی جذبۂ شیخ و برہمن پر
جو کھیتی روح کی مرجھائے جنبش تک نہیں ہوتی
لرز جاتے ہیں جب بجلی تڑپ جاتی ہے خرمن پر
یہ عارفؔ کم نگاہی ہم پر اک مدت سے طاری ہے
نگاہ انتخاب راہبر پڑتی ہے رہزن پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.