نیند جھولی میں لئے وصل گھڑی آتی ہے
نیند جھولی میں لئے وصل گھڑی آتی ہے
یعنی خوابوں میں مرے اب بھی کوئی آتی ہے
عشق تو خیر نہ پہلا تھا نہ دوجا تجھ سے
پھر بھی اے دوست تری یاد بڑی آتی ہے
اس نے یہ کہہ کے ہم ایسوں کی زباں بندی کی
بحث کرنے سے محبت میں کمی آتی ہے
وہ مجھے چھوڑ تو سکتا ہے مگر جانتا ہے
دھوپ میں لی گئی تصویر بری آتی ہے
پہلے ہم دھیان سے چلتے ہیں زمیں پر برسوں
پھر کہیں جا کے یہ بے راہروی آتی ہے
میں اسے توڑ کے بس جان بچا لوں اپنی
وہ روایت جو زمانے سے چلی آتی ہے
اک ترا غم ہے کہ تنہا نہیں ہونے دیتا
اک تری یاد ہے سکھیوں میں گھری آتی ہے
ہائے وہ دن کہ ترے غم سے نہیں تھی فرصت
اب کبھی بیٹھ کے سوچوں تو ہنسی آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.