نکہت گلوں میں خوب ہے فرحت نہیں رہی
نکہت گلوں میں خوب ہے فرحت نہیں رہی
خوشیوں کو کیا ہوا کہ مسرت نہیں رہی
یہ کہہ کے چھیڑتا ہے مرا دل دماغ کو
سنتے ہیں تجھ کو اس سے محبت نہیں رہی
یہ فقر ہے کہ درد کی دولت گئی ہے اور
یہ درد بھی نہیں کہ وہ دولت نہیں رہی
سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو ہی مرنے کا شوق تھا
حالت مری یہ اس کی بدولت نہیں رہی
چھوڑے گئے ہیں قید سے آزاد کب ہوئے
اتنا ہی بس ہوا کہ حراست نہیں رہی
پڑھتا رہا وہ مجھ کو مرا کر کے ترجمہ
کیا جانتا کہ اصل عبارت نہیں رہی
اک عرصۂ شرار تھا ہستی کا یہ سفر
ایسی تو کچھ طویل مسافت نہیں رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.