پائی ہے وہ ملکیت جس میں ملا کچھ بھی نہیں
پائی ہے وہ ملکیت جس میں ملا کچھ بھی نہیں
سر پہ سارا آسماں اور زیر پا کچھ بھی نہیں
اصل اپنا کھوجتا پھرتا ہے آدم عمر بھر
زندگی خود کے تعاقب کے سوا کچھ بھی نہیں
اب پلٹ کر پوچھتے ہو راہ میں کیا کیا ہوا
ہم سیہ بختوں کو کیا ہوگا بھلا کچھ بھی نہیں
عاشقی پر قول کرتے آ رہے ہیں چند لوگ
لوگ وہ جن کے لیے مہر و وفا کچھ بھی نہیں
روز کتنے ہی ستارے ٹمٹما کر بجھ گئے
یوں قضا کا غم نہ کر یہ سانحہ کچھ بھی نہیں
حاصل الفت جو پوچھو تو ہیں میرے دو جواب
ایک تو ساری خدائی دوسرا کچھ بھی نہیں
پھر ہوا کا رخ پلٹنے کو ہے ان کی خیر ہو
جن چراغوں سے ہمارا رابطہ کچھ بھی نہیں
کس قدر دشوار تھا گڑھنا کوئی دنیا جدھر
ابتدا کچھ بھی نہیں اور انتہا کچھ بھی نہیں
ایک صاحب میرؔ جنمے تس پہ اک غالب ہوئے
پھر غزل گوئی میں کرنے کو نیا کچھ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.