پے بہ پے قاصد وہاں آتے رہے جاتے رہے
پے بہ پے قاصد وہاں آتے رہے جاتے رہے
عمر بھر ہم یوں ہی اپنے دل کو بہلاتے رہے
پوچھتے ہیں وہ ترے جی میں ہے کیا کچھ تو بتا
کیا بتائیں ہم تو اپنے جی سے ہی جاتے رہے
کیا خبر تھی بزم میں وہ شوخ بھی آ جائے گا
مدتوں اپنی غزل ہم پڑھ کے پچھتاتے رہے
سامنے آنکھوں کے اپنا گلستاں لٹتا رہا
اور ہم بے چارگی کا اپنی غم کھاتے رہے
آنکھیں ہی ملتے رہے ہم آئی جب فصل بہار
پھول اس گلشن کے اک اک کر کے مرجھاتے رہے
امتحاں راہ طلب کا کس قدر جاں سوز تھا
رہنما ملتے رہے اور ہم کو بھٹکاتے رہے
باتوں باتوں میں ہنسایا میں نے ان کو بارہا
وہ مگر مجھ کو ہمیشہ خون رلواتے رہے
مدعا یہ تھا کہ ہے شاداب کشت آرزو
اپنی آنکھوں سے ہمیشہ اشک برساتے رہے
ایسی قسمت تھی کہاں واصفؔ کہ وہ دیتے جواب
پھر بھی ہم ان کو سلام شوق کہواتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.