پردہ چہرے سے ہٹائے تو غزل ہو جائے
پردہ چہرے سے ہٹائے تو غزل ہو جائے
زندگی سامنے آئے تو غزل ہو جائے
سرد سڑکوں پہ سسکتے ہوئے سناٹوں کا
درد جب دل میں سمائے تو غزل ہو جائے
سوز ہر لفظ کے سینے میں نہاں ہے اب بھی
خامشی ساز اٹھائے تو غزل ہو جائے
شہر احساس اگر نرم لب و لہجے میں
داستاں اپنی سنائے تو غزل ہو جائے
دن کے ہنگاموں میں گم کردہ ہر اک فکر مری
شب کی آغوش میں آئے تو غزل ہو جائے
کب سے بیٹھا ہوں خیالات کا خیمہ تانے
کرب تخلیق ستائے تو غزل ہو جائے
شام غم جام بکف ہے تو اس عالم میں خیالؔ
ہوش بھی ہاتھ ملائے تو غزل ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.