پھر تصور کوئی آنکھوں میں اتارا جائے
پھر تصور کوئی آنکھوں میں اتارا جائے
کچھ پرانی پڑی غزلوں کو نکھارا جائے
یہ سنا ہے کہ وہ گزریں گے ادھر سے شاید
اس بہانے سے چلو گھر کو سنوارا جائے
تیز طوفان میں بکھرے ہوئے ساحل سے پرے
آج کشتی کو سمندر میں اتارا جائے
دوست دشمن سبھی مجھ کو ہیں ڈبونے والے
ڈوبتے وقت یہاں کس کو پکارا جائے
ایک مدت ہوئی ہے خود سے ملاقات ہوئے
اپنی تنہائی میں کچھ وقت گزارہ جائے
کوئی ترجیح نہ کوئی ہو توجہ جس میں
ایسی محفل میں بھلا کون دوبارہ جائے
- کتاب : دھوپ میں بیٹھنے کے دن آئے (Pg. 59)
- Author : سنیل آفتاب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2024)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.