قید میں رہتے ہیں جب تک بھی جیے جاتے ہیں
حلقے زنجیر کے پھر توڑ دئے جاتے ہیں
رونقیں چاند ستاروں کی لیے جاتے ہیں
چاندنی رات کو بے نور کیے جاتے ہیں
یہ تبسم نہ سہی حسن کی سوغات سہی
درد کو ایک چمک اور دئے جاتے ہیں
خاک ہونے پہ بھی کم ہوتا نہیں جذبۂ عشق
روشنی شمع کی پروانے لیے جاتے ہیں
سرخ آنکھوں سے ٹپک کر یہ گلابی آنسو
میرے دامن کو بھی رنگین کیے جاتے ہیں
ڈوب جاتی ہے سویرے ہی سے سورج کی کرن
جب سر شام چراغوں کے دیے جاتے ہیں
جن کو دنیا میں سنبھلنے کی اجازت نہ ملی
زندگی بھر کے وہ ارمان لیے جاتے ہیں
زندگی میری تو گنتی ہے گریباں کے شگاف
آپ کیوں دامن ہستی کو سیے جاتے ہیں
ساقیا رند تو محتاط ہیں مجبور نہیں
عکس مے خانہ کا آنکھوں میں لیے جاتے ہیں
فضلؔ آئین محبت کا بدلنے کے لیے
اہل دل کس لیے مجبور کئے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.